غم کتنے میری زندگی میں رہے
پھر بھی شامل تیری ہر خوشی میں رہے
تیری صورت میں جانے کیا ہے رکھا
مر کے بھی ہم تیری عاشقی میں رہے
پاس اترنے کو تھے بہت سمندر میرے
جانے کیوں ہم تیری تشنگی میں رہے
کہیں آدمی کا دشمن بھی ہے آدمی
کہیں جان آدمی کی آدمی میں رہے
مجھ سے جتنی بھی کی تو نے دشمنی
دل کے رشتے مگر دوستی میں رہے
جب سے تیرے ملن کی امیدیں لگیں
پھر مزے نہ کسی مئے کشی میں رہے