غم کی دیوار گرانے کو نہیں آتا ہے
مجھے کوئ اپنا بنانے کو نہیں آتا ہے
رات گۓ تک تو میں دروازے کھلے رکھتا ہوں
کوئ دل کو ہی چرانے کو نہیں آتا ہے
ایسے تنہائ کے عالم میں جیوں بھی تو میں کیسے
کوئ کم بخت ستانے کو نہیں آتا ہے
ایسا بدلہ ہے وہ غیروں کی بغل میں رہ کر
صرف چہرہ ہی دکھانے کو نہیں آتا ہے
کیسے مانوں کے وہ اب تک ہی مجھے چاہتا ہے
اپنا حق بھی تو جتانے کو نہیں آتا ہے
اس کی لاغرضی باقر ذرا دیکھو تو سہی
میں جو روٹھا ہوں منانے کو نہیں آتا ہے