غم کے سائے بڑھے آتے ہیں کسی قاتل کی طرح
درد میں ڈوبا ہوں میں کسی ساحل کی طرح
کوئی بھی ایسا نہیں جس کہہ سکیں حال دل ہم
آج اپنے ہی دور دیکھتے ہیں کسی منزل کی طرح
میرے مقدر میں بے بسی کے سوا کچھ بھی نہیں
ہاتھ کی لکیریں پڑھتا ہوں کسی زائل کی طرح
اندھیرے مجھ کو کیا دیں گے راہ زندگی میں
میرے دل کا ہر داغ روشن ہے کسی محفل کی طرح
غم کے ساگر میں کچھ یوں ہم ڈوبے ہیں مسعود
خوشی کی قطرے سے بھی خوف کھاتے ہیں بزدل کی طرح