غموں نے کی ہے سازش انتقام لے رہے ہیں
ہے انتقام کی یہ حد،صبح شام لے رہے ہیں
اِک تو ہے کہ ہمارا نام مٹانے پر تلا ہوا ہے
اِک ہم ہیں کہ ہر حال تیرا نام لے رہے ہیں
دُکھوں کو پاس رکھنا اور سینے میں بسانا
تیری چاہتوں کے جذبے ہم سے یہ کام لے رہے ہیں
کہاں ملے گی منزل ہم مسافروں کو اِس طرح سے
تھوڑا آغاز لے رہے ہیں تھوڑا انجام لے رہے ہیں
میخانہ ہوا بے اثر،مے کشی بھی بے اثر ہے
رندوں سے پہلے ساقی،خود جام لے رہے ہیں
تیرے نام لیواؤں کا بھی عجب انداز ہے یہ
جو صبح کو نا لے سکے سرِ شام لے رہے ہیں
محبتوں کی سودے بازی اب عروج پر رہے گی
ہم ایک ہی دام کے بدلے کئی دام لے رہے ہیں
ہوئی ہے پتھروں کی بارش اور کیا بتاؤں علی
تیرے نام کا ہر دور میں هم الزام لے رہے ہیں