غموں کا حظ اُٹھایا ہے خوشی کا جام باندھا ہے
تلاش ِ درد سے منزل کا ہر ایک گام باندھا ہے
طواف ِ آرزو ممکن نہیں اب غیر کی ہمدم!
میرے جذبوں نے تیرے نام کا اِحرام باندھا ہے
کہیں پَر شُوخ جملوں نے سکوں چھینا ہے لوگوں کا
کہیں خاموش چیخوں نے کوٸی کُہرام باندھا ہے
گُماں کے وَسط میں، اِمکان ہونے سے ذرا پہلے
وفا کے زاٸِچے میں عشق کا انجام باندھا ہے
وہ لمحہ، جسکے سینے پر اداسی راکھ ملتی ہے
اسی کی روشنی سے وقت نے الہام باندھا ہے
تری فطرت میں یہ صحرا بدوشی یوں نہیں سدرہ!
تیری وحشت سے قدرت نے کوٸی انعام باندھا ہے!