غموں کو تپائے صحرا میں کوئی نہ تھا ساتھ دینے والا
آہوں کے سفر میں کوئی نا تھا ہاتھ دینے والا
زخموں سے بھرا تھا بدن میرا کوئی نہ تھا مرہم لگانے والا
دل میں اک آگ لگی تھی کوئی نہ تھا بجھانے والا
مگر پھر بھی چلتا رہا زندہ تھا مگر پل پل مرتا رہا
کانٹوں سے اپنا دامن بھرتا رہا
تنہائی کی آگ میں جلتا رہا، کوئی نہ تھا ساتھ دینے والا
کوئی نہ تھا کوئی نہ تھا