غموں کی دھوپ میں ملتے ہیں سائباں بن کر
Poet: افضل الہ آبادی By: Aqib, Lahoreغموں کی دھوپ میں ملتے ہیں سائباں بن کر 
 زمیں پہ رہتے ہیں کچھ لوگ آسماں بن کر 
 
 اڑے ہیں جو ترے قدموں سے خاک کے ذرے 
 چمک رہے ہیں فلک پر وہ کہکشاں بن کر 
 
 جنہیں نصیب ہوئی ہے ترے بدن کی نسیم 
 مہک رہے ہیں زمیں پر وہ گلستاں بن کر 
 
 میں اضطراب کے عالم میں رقص کرتا رہا 
 کبھی غبار کی صورت کبھی دھواں بن کر 
 
 مری صداؤں کو اب تو پناہ مل جائے 
 تجھے پکار رہا ہوں تری زباں بن کر 
 
 میں اس زمین کی وسعت پہ سیر کرتا ہوں 
 فلک کے چاند ستاروں کا رازداں بن کر 
 
 مسرتوں کی فضا میں سدا وہ رہتے ہیں 
 جو غم کے ماروں سے ملتے ہیں مہرباں بن کر 
 
 انہیں کو شان چمن یہ زمانہ کہتا ہے 
 چمن کو لوٹ رہے ہیں جو باغباں بن کر 
 
 میں حرف حرف جسے پڑھ چکا ہوں اے افضلؔ 
 ورق ورق پہ وہ بکھرا ہے داستاں بن کر
More Sad Poetry







 
  
  
  
  
  
  
  
  
  
  
 