غمِ الفت اگرچہ ہمی کو دیئے جاتے ہیں
حیرت ہےإ پھر بھی ہم جیئے جاتے ہیں
زخمِ دل نہ کہیں دیکھ لے ھمارے کوئی
گریباں تمناؤں کا، ہم سیئے جاتے ہیں
عجب سودا ہے کاروبارِ محبت کا بھی
بدلے وفا کے، غمِ یار لئے جاتے ہیں
دل پہ نہ کھل سکے گا تمناؤں کا در
زہرِ تقدیرھم اس لئے پئے جاتے ہیں
نادانی ہے خوشی کی آس لگائے رکھنا
اب حسرتوں کے بجھےدیئے جاتے ہیں