غمِ دل لگی سے ملا کچھ تھا ہی نہیں
بجز درد کے واسطہ کچھ تھا ہی نہیں
نجانے کیوں پھر بھی خفا رہتا تھا
اُسے مجھ سے گلہ کچھ تھا ہی نہیں
کیوں نہ خود کو سپردِ لہرِ قاتل کرتا
میرےبچنے کا آسرا کچھ تھا ہی نہیں
آج وہ بھی قریب سے یوں گزرا
جیسے کبھی وہ میرا کچھ تھا ہی نہیں
عمرِ طویل کے گوشواروں میں رضا
خساروں کے سوا کچھ تھا ہی نہیں