غیرتو غیر تھے جو اپنی حد سے باہرنکلے
میرے اپنے ہی پرائیوں سے بھی بد ترنکلے
وہ کہ جن سے ہمیں امید ِ گل تھی وابستہ
انہیں ہاتھوں میں ہی اپنے لیے خنجر نکلے
زندگی نے اندھیروں کے سوا کچھ نہ دیا
سبھی راتیں قیامت اور دن مثلِ محشر نکلے
وہ جنہیں ہنسنے کی عادت تھی سرِ محفل
وہ سبھی لوگ پسِ محفل چشم ِ تر نکلے
وحشتِ فِراق سے ہی نہ مل سکی فرصت
وصل کے وہ چند لمحے بھی ہِجر نکلے
مجھ میں اب بھی موجزن ہےدرد کا سمندر
بہت نکلے میرے آنسو مگربےثمر نکلے
رمقِ جاں بچی ہے وہ بھی لےلے اے رقیب
اب کے شائد تیرے دل سے میرا ڈر نکلے
بے حِسی کی جاگیر ہے رضا یہ دنیا ساری
نصیب کے کانٹے میرے ہی چارہ گرنکلے