فاصلے ایسے بھی ھونگے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے اور وہ میرا نہ تھا
وہ کسی خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو
میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا
رات بھر اسکی ھی آھٹ کان میں آتی رھی
جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا
عکس تو موجود تھے پر عکس تنھائی کے تھے
آئینہ تو تھا مگر اس میں تیرا چھرا نہ تھا
آج اس نے درد بھی اپنے الگ الگ کر دیے
آج میں رویا تو میرے ساتھ وہ رویا نہ تھا
یہ سبھی ویرانیاں اس کے جدا ھونے سے تھیں
آنکھ دھندلائی ھوئی تھی شھر دھندلایا نہ تھا
یاد کرا کے اور بھی تکلیف ھوتی تھی
بھول جانے کے سوا اب کوئی چارا نا تھا