فراتِ ہجر میں بے آسرا بھی تھا اِک شخص
انا کی دھوپ میں پتھر بھی ہو گیا اِک شخص
تمام شہر پہ وحشت اُسی کے ہجر کی تھی
گئے دنوں میں جو مجھ سے جدا ہوا اِک شخص
کنارے پر تھے اُسے بے بسی سے دیکھتے لوگ
صدائیں دیتا رہا دریا میں ڈوبتا اِک شخص
کوئی تھا دوست یا دشمن یا اجنبی تھا کوئی
بڑی ہی دیر مجھے دیکھتا رہا اِک شخص
یہ صدیوں پھیلی جدائی مٹا بھی سکتے تھے
اے کاش میرے لئے کچھ دیر سوچتا اِک شخص
عقیلؔ جس کے بنا جینے کا حوصلہ بھی نہ تھا
تمام عمر وہی میرا نہ ہو سکا اِک شخص