فراق یار کو دغا سے نسبت نہیں کوئی
رگوں مے ایسی فرسودہ فطرت نہیں کوئی
مکرنا امید افزائی سے رگ رگ مے ہے روا
اعتبار زندگی مے تیری قیمت نہیں کوئی
میں خود ہی مصروف ہوں مشکل معملا مے
اتنا نجات بھی نہیں فرصت نہیں کوئی
اتاروں دل مے تو ایک لو سا چبھن ہوتا ہے
شہر کا مان مکان کیا نزاکت نہیں کوئی