لکھ کے دو میرے حالات پہ غزل آج کسسی نے فرمائش کی ہے
پتا نہیں فرمایش کی ہے یا میر ے ہنر کی آزمائش کی ہے
ہے وہ بھی میری طرح کچھ دربدر عشق کا مارا ہوا دوست
گلے نہ ڈال لینا عشق کا طوق بس اتنی سی اُسے ہدایت کی ہے
بڑی کرتے تھےمحبت اک دوسرے سے مجھے ہر بات بتا تا تھا
بکھرگےاک پل میں وہ نظرلگ گئی یا عشق نے آزمائش لی ہے
آیاں ہے بات کبھی عشق کےشہر میں دوریاں بھی چَکرلگاتی ہیں
بڑے بڑےشہنشاہ ڈوب مرےجنہوں نےدوریوں کی آفزائش کی ہے
آےمیرےنَگراُسےگلےلگا لوں گا جبکہ غلطی بھی اُسی کی تھی
ہےسچاعشق اُسے بادشاہ ہو کردل میں اتنی گنجائش دیکھی ہے
کبھی حالات سناتے ہیںاک دوسرےکو نم ہوجاتی ہیں میری آنکھیں
مجھےبھی تھی محبت نفیس شحص سےنکہ آنسوں نےنمائش کی ہے
لکھ کہ نہیں دی غزل کسی کو ہمیں اپنے حالات سے فرصت نہیں
دل نے کہا لکھو مجسف غزل بڑی آس سے کسی نے فرمائش کی ہے