گہرا سَنّاٹا ہے
کچھ مکانوں سے خاموش اُٹھتا ہوا
گاڑھا کالا دُھواں
مَیل دل میں لئے
ہر طرف دُور تک پھیلتا جاتا ہے
گہرا سَناّٹا ہے
لاش کی طرح بے جان ہے راستا
ایک ٹُوٹا ہوا ٹِھیلا
اُلٹا پڑا
اپنے پہئے ہَوا میں اُٹھائے ہوئے
آسمانوں کو حیرت سے تَکتا ہے
جیسے کہ جو بھی ہوا
اس کا اب تک یقیں اس کو آیا نہیں
گہرا سَنّاٹا ہے
اک اُجڑی دُکاں
چیخ کے بعد منہ
جو کُھلا کا کُھلا رہ گیا
اپنے ٹُوٹے کِواڑوں سے وہ
دُور تک پھیلے
چُوڑی کے ٹکڑوں کو
حسرت زدہ نظروں سے دیکھتی ہے
کہ کَل تک یہی شیشے
اس پوپلے منہ میں
سو رنگ کے دانت تھے
گہرا سَنّاٹا ہے
گہرے سَنّاٹے نے اپنے منظر سے یوں بات کی
سُن لے اُجڑی دُکاں
اَے سلگتے مکاں
ٹُوٹے ٹھیلے
تمہیں بس نہیں ہو اَکیلے
یہاں اور بھی ہیں
جو غارت ہوئے ہیں
ہم ان کا بھی ماتم کریں گے
مگر پہلے ان کو تو رو لیں
کہ جو لُوٹنے آئے تھے
اور خود لُٹ گئے
کیا لُٹا
اس کی ان کو خبر ہی نہیں
کم نظر ہیں
کہ صدیوں کی تہذیب پر
ان بِچاروں کی کوئی نظر ہی نہیں