فسانہ بیتے لمحوں کا ہمیشہ یاد کرتے ہیں
کبھی اپنی کبھی ان کی زبانی یاد کرتے ہیں
ذرا فرست ملی ہے آؤ تم کو بھی یہ بتلا دیں
کہ تنہائی کی وحشت کیسے ہم برباد کرتے ہیں
یہ دل جب بھی تڑپتا ہے اسی کا نام لیتا ہے
اسی کو سوچتے رہنا کہ جس کو یاد کرتے ہیں
اکیلے بیٹھ کر پہروں انہی کو سوچتے رہنا
تنہائی کی وحشت اسی طرح برباد کرتے ہیں
میرے دل کو خبر میری محبت کو یقیں ہے کہ
میری طرح سے وہ بھی مجھے یاد کرتے ہیں
میری یادوں سے اکثر ہی شام و سحر میں
بزم احساس وہ اطراف میں آباد کرتے ہیں
انداز بیاں، حسن سخن، حسن ادا بھی
کچھ خاص ہے ان میں جو انہیں یاد کرتے ہیں
دل ناشاد کو عظمٰی ہم ایسے شاد کرتے ہیں
کسی کا نام لیتے ہیں کسی کو یاد کرتے ہیں