فصل گل جو آگئی بہار سے بھی ڈر گئے
خزاں رسیدہ پات تھے ہواؤں میں بکھر گئے
اب اور کیا کہو گے تم پیار کی صفائی میں
ترے لئے تو جیتے جی ہم آج ہی سے مر گئے
انعا م تو نے پا لیا تجھے بھی کچھ خبر ہے کیا
ترے انعام کے عوض جانے کتنے سر گئے
پوچھ لی جو میں نے ان سے رات کی وہ داستاں
ملے تو مجھ سے ملتے ہی وہ آج پھر مکر گئے
رقص میں تھیں وحشتیں رقص میں تھا آسماں
اداسیوں سے مل کے بھی روتے روتے گھر گئے
تری کٹی ہے عیش میں مری کٹی دکھوں میں ہے
ترے بھی دن گزر گئے مرے بھی دن گزر گئے