فصلِ خزاں میں سیر جو کی ہم نے جائے گُل

Poet: Mir Taqi Mir By: TARIQ BALOCH, HUB CHOWKI

فصلِ خزاں میں سیر جو کی ہم نے جائے گُل
چھانی چمن کی خاک، نہ تھا نقشِ پائے گُل

اللہ رے عندلیب کی آوازِ دل خراش
جی ہی نکل گیا، جو کہا اُن نے ہائے گُل

مقدور تک شراب سے رکھ انکھڑیوں میں رنگ
یہ چشمکِ پیالہ ہے ساقی ہوئے گل

بلبل ہزار جی سے خریدار اس کی ہے
اے گُل فروش کریو سمجھ کر بہائے گل

نکلا ہے ایسی خاک سے کس سادہ رُو کی یہ
قابل درود بھیجنے کے ہے صفائے گل

بارے سر شکِ سرخ کے داغوں سے رات کو
بستر پراپنے سوتے تھے ہم بھی بچھائے گُل

آ عندلیب صلح کریں جنگ ہو چکی
لے اے زبان دراز تو سب کچھ ہوائے گُل

گُل چیں سمجھ کے چنُیو کہ گلشن میں میر کے
لختِ جگر پڑے ہیں،نہیں برگ ہائےگُل

Rate it:
Views: 653
20 Sep, 2011
More Sad Poetry
ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے ہَر ایک مُحبت مُحبت کرتا پھِرتا ہے یہاں لیکن
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
MAZHAR IQBAL GONDAL