فغاں
Poet: Shabbir Rana By: Dr. Ghulam Shabbir Rana, Jhang City(Punjab--Pakistan)جاہ و منصب کی تلوار
ہاتھ میں تھام کے نکلے ہو
شیش ناگ کی معیت میں
مگر عطائی یہ جان رکھو
تمہاری کرگسی آنکھوں کے گرد سیاہ ہالے
وحشت اور بر بریت سے لبریز خونچکاں حوالے
شقاوت آمیز ناانصافیوں کے سلسلے
ایک قاطر کے روپ میں تم کھڑے ہو
اور تمھارے ہمراہ جو گروہِ گوسفنداں ہے
چربہ ساز، سارق اور کفن دزد سارے
لال بجھکٹر بنے ہوئے ہیں
کب تک چلے گی لوٹم لاٹ، چکی کے ہیں دو ہی پاٹ
جس میں تم سب پس جاؤ گے، پچھتاؤ گے
مظلوموں کی آہ پڑی گی
چین کہیں نہ پاؤ گے، گھبراؤ گے
اے متفنی کچھ نہ کیا خیال، کیسا ہے یہ وبال
مجبوروں پہ قیامت ڈھائی
آج تو ہر زباں پر جاری تیری قارونیت کے قصے ہیں
تجھ سے فرعون کے خاتمے کے لیے کسی قاہر کا انتظار ہے اب
اپنی مظلومیت پہ داد طلب، دکھی انسانیت ہے محوفغاں
تجھ سے طامع کا خاتمہ ہو جائے
آہی جائےگا ایک دن آخر جواب
آنسو، آہوں اور نالوں کا
ہر غاصب اور مہم جو کا خاتمہ ہے قریب
طالع آزما اپنے انجام کو پہنچ جائیں گے
ملخ ومور کے جبڑوں میں انھیں آنا ہے
عمرِ رفتہ کے سرابو ں میں عذابوں میں پھنسے
جابر وغاصب کرگس
حادثہ وقت نے جن زاغوں کو
عقابوں کے نشیمن میں بٹھا رکھا تھا
مجبوروں کے خون سے ہولی کھیلنے والے
فطرت کی تعزیروں کی زد میں آئیں گے
اپنے کرتوتوں کے باعث
منہ کی کھائیں گے
دار و رسن کے لالے سب کو پڑ جائیں گے
گرگ آشتی کا بھانڈا جلد ہی پھوٹے گا
امید کا دامن اب نہ ہاتھ سے چھوٹے گا
اندھیر نگری میں کہیں بھی
جنگل کا قانون نہ ہوگا
مظلوموں پہ غیظ وغضب کا
اب کوئی مضمون نہ ہوگا
آزادی کی صبح درخشاں آئے گی
ظلم کی کالی رات کا خاتمہ کردے گی
مظلوموں کی جھولی پھر یہ صبحِ درخشاں
عزمِ نو، ولولے اور امید سے بھر دے گی
اپنے منہ میاں مٹھو بننے والا
جعلی افلاطون نہ ہوگا
مجبوروں، محروموں پر
اب کوئی شب خون نہ ہوگا
چور محل میں پلنے والا
چور دروازے سے گھس کر
غارت گر امید نہ ہو گا
کوئی نظام سقہ صحن چمن میں آ نہ سکے گا
چام کے دام چلا نہ سکے گا
صباحت بے بضاعت کرنے والا
حسیناؤں کی زلف گرہ گیر کا اسیر وہ خبطی پیر فرتوت
سٹھیا کر محبت کرنے والا
شیخ الجامعہ جو بن گیا تھا
تنزل کی وہ منزل پا گیا تھا
جسے دیکھ کر ہر اک وحشی درندہ
زمیں میں گڑ گیا تھا
مگر چکنا گھڑا اب تک نہ ٹوٹا
بلا سے آن رخصت
نصیب پھوٹا
اسی ننگ جہاں نے چین لوٹا
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






