فغاں ہے یا دعا ہے کون جانے
صدائے درد کیا ہے کون جانے
خرد پہنا نہ دے جب تک معانی
کوئی کیا بولتا ہے کون جانے
پتہ تو اپنی منزل کا ہے سب کو
کدھر سے راستہ ہے کون جانے
مری آنکھیں جسے سنتی ہیں اکثر
صدائے بے صدا ہے کون جانے
جنوں سے آگہی تک ذندگی کا
کہاں تک سلسلہ ہے کون جانے
سر آئینہ خود کو دیکھتا ہوں
پس آئینہ کیا ہے کون جانے