فکرِ دنیا میں زیست گزار رہا ہوں
میں جیسے کوئی قرض اُتار رہا ہوں
اُجڑے ہوئے گلستاں کو اے باغباں
اپنے خونِ جگر سے نکھار رہا ہوں
میری صدا سُن یا نہ سُن تیری مرض
ایک زمانے سے تجھے پکار رہا ہوں
تُو کوئی چال چلنے کی نہ کر زحمت
میں خود جیتی بازی ہار رہا ہوں
اب تو بتا دو ہنسنے کی کوئی ترکیب
میں اک عمر سے اشکبار رہا ہوں
روز اک نئی خواہش جنم لیتی ہے امر
روز ہی اک خواہش کو مار رہا ہوں