تنہا ئی مار د یتی ہے
عذاب ڈال د یتی ہے
آنسووں کی لڑی بن کر
چھم چھم بہنے لگتی ہے
اجنبی سی را ہوں میں
فر یب کی با ہوں میں
یقین بن کے رو تی ہے
بے چینی کی حا لت میں
کئی ر ستے چنتی ہے
تنہا ئی کے عذاب سے
سا نس ٹو ٹنے لگتی ہے
سا نس کی ڈوری سے جڑ ی
آس چھو ٹنے لگتی ہے
اک عر صے کے لیئے
وقت رک جا تا ہے
وقت رک جا تا ہے تو
ر گوں میں ا تر نے لگتی ہے
تب حا لت آد می کی
غیر ہو نے لگتی ہے
ڈھو نڈتے ہیں ادھر ادھر
دو ستوں کو یا روں کو
سب روٹھ جا تے ہیں
سب چھوٹ جا تے ہیں
ایسی اکیلی حا لت میں
جان نکل جا تی ہے