قسمت کو میں نے ایسے ہی پایا ہے
انتظار کے لمحات میں بھی ٹرین کو چھوٹتے ہوئے پایا ہے
کبھی انجانے میں بھی ٹرین میں خود کو بیٹھے ہوئے پایا ہے
قسمت کو میں نے ایسے ہی پایا ہے
محبت کی طلب رکھنے والوں کو تنہا کھڑا ہوا پایا ہے
محبت پا لینے والوں کو بےغرض و بےنیاز ہجوم میں پایا ہے
قسمت کو میں نے ایسے ہی پایا ہے
پہاڑ کی طرح مضبوطی سے طوفانوں میں بھی کھڑا پایا ہے
کبھی بارش کی بوندوں کی طرح نرمی سے گرتے ہوئے پایا ہے
قسمت کو میں نے ایسے ہی پایا ہے
ہاں ! مانا کہ شکوے ہزار ہیں اس قسمت سے مجھے اپنی
شکایات بھی انہی سے ہے جس کو بس اپنا ہمراز پایا ہے
ہاں قسمت کو میں نے اپنا ،صرف اپنا ،بس اپنا رہبر پایا ہے
قسمت کو میں نے حسین بہت حسین بس حسیں پایا ہے