اغیار کے ہاتھوں میں تقدیر لٹا بیٹھی
میں اپنی ہی خواہش کے سب دیپ بجھا بیٹھی
ہر سمت مرے اب تو الفت کی بہاریں ہیں
لگتا ہے میں پھر دل کی یہ سیج سجا بیٹھی
قسمت میں یہ لکھا تھا ، پچھتانے سے کیا حاصل
افسوس محبت کی میں دیوار گرا بیٹھی
دنیا کی نظر میں تو بے لوث محبت تھی
اک چوٹ جفا کی پھر کیوں دھوکے سے کھا بیٹھی
امشب مجھے لگتا ہے میں جان لٹا دوں گی
اک شمع کی صورت جو تری یاد جلا بیٹھی
اس راہ جفا کش پر ، اس راہ تمنا میں
بے ساختہ لگتا ہے میں خود کو بھلا بیٹھی
یہ تیری عقیدت کا ، محبت کا فسانہ تھا
وشمہ میں جسے اپنے خوابوں میں بسا بیٹھی