اس خون کی کس سے قصاص لی جائے گی
کیا زندگی یونہی ظلم میں گزر جائے گی
یہ ننھی کلیاں اور یہ ادھ کھلے پھول
کیا یونہی چمن سے بہار گزر جائے گی
یہ پرخوف زندگی اور موت کے مہیب سائے
کیسے زندگی وادی پرسرار میں اتر جائے گی
کسی کے بھی ہاتھ پر کوئی تلاش نہ کرسکا لہو
پھر خون کی ہولی پر برسات گزر جائے گی
امید سحر میں بجھے ہوئے سب چراغ
پوچھتے ہیں کب سیاہ رات گزر جائے گی
شہر کی گلیوں میں ماتم کرتی ہے بےبسی
کیا روز دلوں پر قیامت گزر جائے گی
جو چلے گئے اب نہیں لوٹیں گے کبھی
آج حسرتوں پر شام غریباں گزر جائے گی