کوئی ناجانے
ان آنکھوں میں کتنی گہرائی ہے
گرتے آنسو میں کتنی تنہائی ہے
پوچھا ! کسی نے سبیب
آنکھ سے
کیوں بہاتی ہیں تو آنسو ؟
کیوں تو اک آنسو گرا کر
شرمندہ کر دیتی ہیں ؟
بھری محفل میں تو رسوا کر دیتی ہیں ؟
آنکھ بولی ! جاتنے ہو کیا ؟
اک دل ہے
جو خون سے روتا ہے
پر کسی کو دیکھائی نہیں دیتا ہے
یہ سارا کمال تو میرا ہے
پر مجھے کوئی شباش نہیں دیتا ہے
جو میں اس خون کو
آنکھوں سے نکال کر
بے رنگ کرتی ہوں
یہ غموں میں تلخیوں میں
جل جل کڑوا ہو جاتا ہے
پر میں اسے نمکیں کرتی ہوں
پھر کیوں لوگ
مجھے خطاوار کہتے ہیں ؟
کیوں مجھ پے رنگ رنگ کے
یوہی الزام دیتے ہیں ؟
اور اگر کچھ نا بنے کہنے کو
تو آسانی سے کہتے ہیں
کہ رونا نہیں تھا ہم نے
پر قصور تو ان آنکھوں کا ہے