قصہ ابھی حجاب سے آگے نہیں بڑھا
میں آپ ، وہ جناب سے آگے نہیں بڑھا
مدت ہوئی کتاب محبت شروع کیے
لیکن میں پہلے باب سے آگے نہیں بڑھا
لمبی مسافتیں ہوں مگر اس سوار کا
پاؤں ابھی راقاب سے اگی نہیں بڑھا
لوگوں نے سنگ و خشت کے قلعے بنا لیے
اپنا محل تو خواب سے آگے نہیں بڑھا
وہ تیری چال ڈھال کے بارے میں کیا کہے
جو اپنے احتساب سے آگے نہیں بڑھا
رخصار کا پتہ نہیں اُنہیں تو خوب ہو
دیدار ابھی نقاب سے آگے نہیں بڑھا
وہ لذّت ای گناہ سے محروم ہی رہا تبسم
جو خواہش ثواب سے آگے نہیں بڑھا