قطرہ قطرہ بکھر رہا ہے کوئی
بس کرو ہجر مر رہا ہے کوئی
کوئی اب کس طرح بتائے اسے
تجھ سے امید کر رہا ہے کوئی
اپنے زخموں کی بد مزاجی میں
پٹریوں سا اکھڑ رہا ہے کوئی
گرد ہوتی ہوئی صداؤں سے
خامشی سے نتھر رہا ہے کوئی
اپنی سانسوں کے خالی برتن میں
مستقل پیاس بھر رہا ہے کوئی
دیکھ چہرہ بگڑ نہ جائے کہیں
بے تحاشہ سنور رہا ہے کوئی