جب وہ محوِ شباب ہوتے ہیں
آئینے بھی رُباب ہوتے ہیں
اُن تبسم فروش آنکھوں سے
سُوکھے پتے گلاب ہوتے ہیں
عاشقی میں حُسن کا انداز رہنا چاہیے
سوز میں ہلکا سا رنگِ ساز رہنا چاہیے
جانے کب دے دے صدا کوئی حِریم ناز سے
بزم والو گوش بر آواز رہنا چاہیے
دیوانہ بے خودی میں بڑی بات کہہ گیا
اِک حشر کی گھڑی ملاقات کوکہہ گیا
پہلا طرب شناس بڑا سنگدل تھا دوست
چیخیں تھیں جن کو جھوم کے نغمات کہہ گیا
جامِ رنگیں اُچھال کر چلیے
چال مَستی ڈھال کر چلیے
کُچھ تغیر کی بیکراں شکنیں
رُوئے ہستی میں ڈال کر چلئے