بتاؤں کس طرح تم کو وطن کا حال مت پوچھو
قفس میں رہنے والوں سے چمن کا حال مت پوچھو
کٹے ہوں جس کے بال و پر کبھی ایسے پرندے سے
بھلے سب پوچھ لو لیکن گگن کا حال مت پوچھو
یہ اشکوں کے سمندر جو پسِ مژگاں سنبھالے ہیں
تہہِ آبِ رواں موجوں کے من کا حال مت پوچھو
خبر جو ہے مرے دل کی مرے اشکوں سے تم سن لو
لگی ہے آج جو دل میں اگن کا حال مت پوچھو
مجھے میری محبت کی جو جی چاہے سزا دے لو
گلے لگ کر جو رویا ہے سجن کا حال مت پوچھو
ستاروں کی کبھی آنکھوں میں پڑھنا رازِ دل میرا
وہ دل میں ہے جو پوشیدہ لگن کا حال مت پوچھو
جو دل میں درد اٹھتا ہے تو وشمہ شعر ہوتے ہیں
مری غزلوں کی پھر بھی انجمن کا حال مت پوچھو