قوت عشق پہ اپنی اعتماد کر کعبہء دل دیارِ جاں کو آباد کر
مسلک بےوفائی سے الحاد کر جفا پرستوں کے خلاف جہاد کر
گر کوئی کسی کا سودائی ہو گلی گلی اس کی رُسوائی ہو
پر معشوق جب ہرجائی ہو تو دلِ ناداں خود کو نہ یوں برباد کر
صدیوں کی انمول چاہتیں ہماری روحوں کی ہیں امانتیں
مرے حال پہ وہ عنائتیں میں یاد کروں کبھی تو بھی یاد کر
مرحلہ بھلانے کا ہے صبر آزما لاکھ کرتا رہے تو جور و جفا
میں تو ہوں وفا آشنا چاہے جتنے بھی ستم نئے ایجاد کر
بن کے شعلہء غم بھڑکتا رہا آہوں کی لَے پر دھڑکتا رہا
مرے پہلو میں جو تڑپتا رہا کہتا تھا مر جا پر نہ فریاد کر
کِھلےتھےجس جا قربتوں کے پھول اُڑ رہی ہےحسرتوں کی دھول
کیسے میں جاؤں تجھ کو بھول خدارا مجھے اپنے غم سے آزاد کر
یہ گردِ سفر یہ غبارِ کارواں دیتا ہے گمشدہ منزلوں کا نشاں
جائےگا تُو روٹھ کے جہاں جہاں چل اب بس کر دل اپنا شاد کر
سر پہ دھرا ہے دست اجل رعنا ہوتے ہوتے بھی قتل
دُکھی سی کہی ہے ایک غزل یہ خطا معاف میرے صیاد کر