کہیں پہ خون بکھرا ہے,کہیں بکھرے ہؤے اعضاء
کہیںپہ پھر دھماکہ ہے,وہاں لیٹے ہؤے لاشے
موت رقصاں ہر اک جانب,زندگی نوحہ کناں ہے
قیامت یہ نہی تو پھر قیامت کس کو کہتے ہیں
تڑپتے بھوک سے بچے نوالے کو ترستے ہیں
مگر اشرافیہ ک گھر من و سلوئ اترتے ہیں
ظلم یہ کہ لب بستہ,سبھی آلام سہتے ہینں
قیامت یہ نہیں تو پھر قیامت کس کو کہتے کہتے ہیں
کہیں فاقہ کہیں غر بت,داؤ پہ لگ گئ عصمت
کہیں بکتے ہؤے بچے عوض کچھ دانہ پانی کے
یہاں خود سوزیاں ہر سو,بیروز گاریاں ہر سو
قیامت مت یہ نہیں تو پھر قیامت کس کو کہتے ہیں
کہیں بے حس لوگوں نے بندوکیں تان رکھی ہیں
کسی معصوم شہری پر,کہ اب شناخت نامہ ہی
کرے گا فیصلہ یہ کہ,اسے مرنا کہ جینا ہے
قیامت یہ نہیں تو پھر قیامت کس کو کہتے ہیں
اکہتر میں ہؤا تقسیم آدھا ملک یہ مانا
کہ سازش غیر کی تھی وھ,کہ اسکا دکھ جگہ اپنی
ہر اک کوچہ کراچی کا ہوا تقسیم در تقسیم
قیامت یہ نہیں تو پھر قیامت کس کو کہتے ہیں
کہیں فرقہ پرستی ہے کہیں ذاتوں کا جھگڑا ہے
کہیں بھتے کا مسلہ ہے عجب باتوں کا جھگڑا ہے
زندگی بین کر تی ہے خرافاتوں کا جھگڑا ہے
قیامت یہ نہیں تو پھر قیامت کس کو کہتے ہیں
سنو کہ روشنی کا شہر بہت تاریک ہے یارو
شہر کے با سیو سنو شہر کا قرض اترو
ظلم سہتے چلے جانا کوئ قدم نہ اٹھانا