قید خانے کی رات اداس ہوتی ھے
جلتے سینے میں پیاس ہوتی ھے
لگتا ھے زنداں کے باہر ہو آئی
تیری آھٹ پاس ہوتی ھے
ہوا کے تازہ جھونکوں میں
بکھری زلفوں کی باس ہوتی ھے
تیری پازیب چھنکتی ھے یا
کسی زنجیر کی آواز ہوتی ھے
یادوں کی کتاب کھل جاتی ھے
شب۔ تنہائی تیرا ہی باب ہوتی ھے
خیال پروانوں کی طرح آتے ہیں
درد کی شمع بیتاب ہوتی ھے
دور بجتا ھے کہیں پر ساز کوئی
کسی ٹوٹے ہوئے دل کی آواز ہوتی ھے
چاند پیڑ پر اداس نظر آتا ھے
ذرد چاندنی کی رات ہوتی ھے
اٹھ کر تیرے ساتھ چل پڑتا ہوں
حائل دروازہ نہ کوئی دیوار ہوتی ھے
نیند اپنی آغوش میں لے لیتی ھے
ستارے ڈوبنے لگتے ھیں سحر ہوتی ھے