اسے جب دیکھنا چاہا
نجانے خوف کیسا تھا
یا بس انجان ہلچل تھی
فقط آواز دل نے دی
سنو یہ آخری سیں ہے
دکھا ہے جو یہاں تجھ کو
فقط یہ اک فسانہ ہے
بہت سوچا بہت سوچا
سمجھ میں کچھ نہیں آیا
یا شاید تنگ مجھ سے تھا
نجانے ایسا کیا مجھ میں
جو اک ہلچل لگی دل میں
وہ اک عادت
وہ عادت اس کے سونے تک مرا جو ساتھ دیتی تھی
میں متلاشی تھی اس کی ہی
نجانے کیوں
یہ چاہت تھی کروں باتیں مگر نہ بات کرتی تھی
نجانے کیسی لذت تھی
یہ انتظارِ محبت کی
ہاں تھا اک حوصلہ ایسا
جو سب کچھ بھی کراتا تھا
بہت دل میں یہ خواہش تھی
لگن اور جستجو بھی تھی
مگر جانے کیوں صلہ کچھ نہ ملا مجھ کو
اچانک کال آئی اک
وہ ایسی کال کہ جس نے سبھی کچھ راکھ کر ڈالا
مرے جذبوں کی شدت کو بھی پل میں راکھ کر ڈالا
عقل اب تک پریشاں ہے
نجانے کیوں میں زندہ ہوں
سمجھ مجھ کو ہے اب آیا
یہی تو آخری سیں ہے