لب پہ شکوہ رہا بھی ہے کہ نہیں
جانے اب مدعا بھی ہے کہ نہیں
جاگتی آنکھ سے جو دیکھا تھا
خواب وہ سچ ہوا بھی ہے کہ نہیں
بعد فُرقت خبر تو لی ہوتی
وہ بچھڑ کر بسا بھی ہے کہ نہیں
روز رستے سے پوچھتا ہوں کہ وہ
اُلٹے قدموں چلا بھی ہے کہ نہیں
کب سے جو قید ہے قفس میں ترے
وہ پرندہ اُڑا بھی ہے کہ نہیں
ہم جو ہیں خُود کو مار بیٹھے ہیں اِس کی کوئی سزا بھی ہے کہ نہیں
تُو جو اتنا ہے بدگماں خُود سے
خُود سے پل بھر جُدا بھی ہے کہ نہیں
تُو سپر تان دیکھ لیتے ہیں
مرنے کو دم بچا بھی ہے کہ نہیں
اِک زلیخا نے مجھ سے پُوچھ لیا
یُوسف اب تک بِکا بھی ہے کہ نہیں
جس طرح کا مزاج ہے تیرا
کوئی خوش رہ سکا بھی ہے کہ نہیں
ایک مدّت سے سوگ میں جِس کے
خون ہوں، وہ مرا بھی ہے کہ نہیں
عمر بھر کی گزر بسر کے لیے
سر میں سودا پڑا بھی ہے کہ نہیں
نوچ پھینکیں دعائیں لب پر سے
پڑ گیا شک خدا بھی ہے کہ نہیں
تو جو رکھّے ہے آسماں سے اُمید
کچھ وہاں سے مِلا بھی ہے کہ نہیں
دل مرے دِل ترے مکاں اندر
کوئی دائم رہا بھی ہے کہ نہیں
ٹوٹا جس طور آئینہ ءِ ذات
عکسِ جاناں بچا بھی ہے کہ نہیں
لکھتے دم میرِ داستاں تُو نے
جز الم کچھ لکھا بھی ہے کہ نہیں
اے گلی، تجھ میں خوار ہوتے وقت
گرنے والا اُٹھا بھی ہے کہ نہیں
جانے کس اور چل پڑا ہوں میں
اُس طرف راستہ بھی ہے کہ نہیں
آج پھر سے جسے بُھلانا ہے
یاد اُس کو کِیا بھی ہے کہ نہیں
تیری اُمید کا جنازہ جنیدؔ
کبھی تُجھ سے اُٹھا بھی ہے کہ نہیں
جنید عطاری