لرزاں قدم زمیں پہ ، نظر آسمان پر
پر ہوش کے لگا لے تو اپنی اڑان پر
لاحق ہے خطرہ شہر کے امن و امان پر
پھر ٹھپہ اک لگا گیا کوئی مکان پر
دریا مچل رہا ہو تو اک گھونٹ لے ہی لو
پیاس اتنی مت بڑھاؤ کہ بن آئے جان پر
بھرتے ہیں پارسائی کا دم میری سب یہاں
مشکوک ہو ئئے نہ لبوں کے نشان پر
مشکل بہت ہے بچنا حسینوں کے دام سے
رہتے ہیں تانے تیر وہ اپنی کمان پر
بس ناتواں دلوں پہ ذرا رحم کیجئیو
کمسن ترا شباب یے اپنی اٹھان پر
تنگ آ کے راستوں کے نشیب و فراز سے
اب گامزن ہے زیست بس اپنی ڈھلان پر
کفر اس سے بڑھ کے اور بھلا ہو گا کیا ‘ حسن ‘
ہے بغض و کینہ ذہن میں کلمہ زبان پر