لفظ وہی رہتے ہیں
پر انسان بدل جاتے ہے
خیال وہی رہتے ہیں
پر انداز بدل جاتے ہے
وقت کہا رکتا ہیں لکی
پر دل ٹہر جاتا ہے
ہاتھ کی لکیروں میں آتے ہیں لوگ
پھر نجانے کیسے نکل جاتے ہے
دور بنا لیتے ہیں
دل والے ٹھکانہ دل کا
پھر ُاسے پانے کی خاطر
حدوں سے گزر جاتے ہے
بہاتے ہیں اشک
آنکھوں سے تنہایوں میں
کتنے عجیب لوگ ہیں
محفلوں میں آ کر ُمکر جاتے ہے