لو گذر گئی برسات بھی
پر کٹی غم کی رات بھی
چھن گیا اپنا سائباں تو کیا
ڈھہ گئی دشمن کی گھات بھی
جو مانگی تھی قیامت میرے لیے
وہی بیتی اس کے ساتھ بھی
او میرا حق مارنے والو
کیا آیا تمہارے ہاتھ بھی
نہ بھولے اس ہرجائی کو ہم
نہ تھمی آنکھوں کی برسات بھی
کیوں روٹھے ہو بھلا ہم سے
کہہ دو دل کی بات بھی
حبیب دل کا سودا تو کر چکے
دے دو جاں کی سوغات بھی