خوش ہیں اس دنیا میں خال خال لوگ
اور جابجا نظر آتے ہیں زبوں حال لوگ
یہ احساسِ زیاں تو فقط ظاہری ہے
کرتے ہی رہتے ہیں سوال پہ سوال لوگ
وحشت اثر، سیماب صفت، جنوں خیز
کہاں سے آتے ہیں محشر خیال لوگ
خواب کوئی بکھرے، نہ ٹوٹے کوئی امید
کبھی سمجھ جو پائیں وقت کی چال لوگ
وہی تجربے، وہی نتیجے، وہی معانئ بے معانی
گزار رہے ہیں ہر سال پچھلا سال لوگ
خواہشیں جب ڈھل جاتی ہیں جستجو میں
گزار کے جاتے ہیں بھرپور ماہ وسال لوگ
وقت کی تگ و تاز بکھیر دیتی ہے سب کچھ
دیکھتے ہی دیکھتے ہو جاتے ہیں پامال لوگ
ہر اندھیری بات کو قلب کا اجالا کہیں
ہوگئے ہیں کس قدر روشن خیال لوگ
دن کی تابناکی اور رات کی ظلمت کے بیچ
ہر دم بنے بیٹھے ہیں صورتِ سوال لوگ
اوروں کی خبر نہیں، لیکن اتنا پتہ ہے ہم کو
بزمِ شارق میں ہوتے ہیں کشف سے مالامال لوگ