جو خیال تھے نہ قیاس تھے وہی لوگ مجھ سےبچھڑ گئے
جو محبتوں کی اساس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جنہیں مانتا ھی نہیں یہ دل وہی لوگ میرے ھیں ھمسفر
مجھے ھر طرح سے جو راس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑگئے
مجھے لمحہ بھر کی رفاقتوں کے سراب اور ستائیں گے
مری عمر بھر کی جو پیاس تھے وہی لوگ مجھ سےبچھڑ گئے
یہ خیال سارے ھیں عارضی یہ گلاب سارے ھیں کاغذی
گل آرزو کی جو باس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
جنہیں کر سکا نہ قبول میں وہ شریک راہ سفر ھوئے
جو مری طلب مری آس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئے
مری دھڑکنوں کے قریب تھے مری چاہ تھے مرا خواب تھے
وہ جو روزو شب مرے پاس تھے وہی لوگ مجھ سے بچھڑ گئ