لوگ کہتے ہیں مجھ پہ اُداسی اچھی نہیں لگتی
مجھ کو زمانہ کیا، یہ دُنیا ہی اچھی نہیں لگتی
اس قدر رُوندا گیا ہوں کسی کی نظر میں ، میں
ورق توکیا، مجھ کو اب قلم بھی اچھی نہیں لگتی
مُدتوں بعد دُھلے ہیں عرقِ آسماں سے غم
موسم کیا، مجھ کو بارش بھی اچھی نہیں لگتی
رانج ہیں مُقیم گھر اپنے،کب ہو گی نَقل مُکانی اِنکی
خزاں کا موسم کیا، مجھ کو بخار بھی اچھی نہیں لگتی
بے اعتبار سِی دُنیا اک تَنہا تماشا سا میں
جی ہاں موت کیا، مجھ کو زندگی اچھی نہیں لگتی
ایسا تنہا ہو ا، کہ غریب کا مُکاں ہی گِر گیا ہو جیسے
رقیب تو کیا ، مجھ کو ہر مِخفل ہی اچھی نہیں لگتی
جِینا ہوا مُحال نفیس، اچھا ہے کہیں سے موت خرید لوں
کِسی کو میں اچھا نہیں، کِسی کو باتیں اچھی نہیں لگتی