لوگ کیوں بس کے اجڑتے ہیں کبھی سوچا ہے
کس لئے جاں سے گرزتے ہیں کبھی سوچا ہے
کیسے پلکوں کی لرزتی ہوئی منڈیروں پر
سینکڑوں دیپ چمکتے ہیں کبھی سوچا ہے
گویا بہاروں مین چمن ہوتے ہیں آباد مگر
پھول پامالی سے ڈرتے ہیں کبھی سوچا ہے
رنگ چہرے کا بدل جاتا ہے پل بھر کیلئے
لوگ جب بات بدلتے ہیں کبھی سوچا ہے
جو نظر آتے ہیں آئینہ سی پوشاکوں میں
وہ بھی مٹی میں اترتے ہیں کبھی سوچا ہے
نارسائی سے نہیں مرتا کوئی، مان لیا
دل میں آرے سے جو چلتے ہیں کبھی سوچا ہے