اگرچہ مسلکِ ماضی رہا ہے آگ ہی آگ
اجڑ سکا نہ مگر مادرِ زمیں کا سہاگ
٭
لُٹ کر بھی کوئی دشتِ جنوُں کی نہ راہ لے
اپنی شکست ہی میں محبّت پناہ لے
٭
تجھے نصیب ہو تیری بہار سامانی
مری خزاں سے مگر قصّئہ بہار نہ پوچھ
٭
ہنسے تو مجھ پہ ہنسے اور وہ بھی برسرِ عام
سُنا ہے آپ تو ڈرتے تھے جگ ہنسائی سے
٭
تم اِتنی دُور سے چل کر مرے قریب آئے
تو اب قریب ہی بیٹھو، تھکن مجھے دے دو