ہر کسی کو محبت میں وفا نہیں ملتی
چلو ! میں تمہاری بات مان لیتی ہوں
چلو ! کچھ کہیں بناء ہی میں لوٹ جاتی ہوں
میں خود کو سمجھا لوں گئی
میں خود کو بھلا لوں گئی
مگر تم بھی اک وعدہ کرو
مجھے میرا وہی مان دے دو گے
میری وہی کچھ ادھوری ، کچھ مکمل
کچھ نادان سی پہچان دے دو گے
جو لوگوں کی نظروں میں
مان تھا کبھی میرے لیے
تم پھر سے مجھے وہی مان دے دو گے
جو آج ُاٹھ رہے ہیں میرے کردار پے سوال
تم ہر اک کے سوالوں کا جواب دے دو گے
میری سونہی آنکھیں جو
اب خوابوں سے بھی ڈرتی ہیں
تم پھر سے ُانہیں سپنوں کا جہاں دے دو گے
بھول نہیں شاید گناہ تھا میرا
جو محبت پے بھروسہ کر لیا میں نے
چلو ! چھوڑوں مجھے تم سے کوئی گلہ نہیں
مجھے تم سے کوئی شکوہ نہیں
چلو ! میں لوٹ جاتی ہوں
وہ چاندی راتیں وہ پیار کی باتیں
میں سب ہی بھول جاتی ہوں
میں سمجھا لوں گئی خود کو
کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں
مگر تمہارے کہنے پے
میں جنہیں چھوڑ آئی تھی
میں جن سے اپنا ہر تعلق توڑ آئی تھی
میں جن کے صدیوں کے بھروسے کو
صرف چند سالوں کی الفت میں تماشا بنھا آئی تھی
میں جن کی عزت کی چادر ُاتار آئی تھی
میں ُانہیں کیا جواب دوں گئی ۔ ۔ ۔ ؟؟
چلو ! میں واپس لوٹ کر انہیں کچھ بھی کہہ لوں گئی
میں ُان کا ہر ظلم سہہ لوں گئی
مگر میرے ہمدم یوں کسی کو
آدھے راستے میں چھوڑا نہیں کرتے
چاہے کچھ بھی مجبوری ہوں
یوں تو کسی کا دل توڑا نہیں کرتے
کیا محبت یوں بھی ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ ؟؟
چلو ! چھوڑوں مگر صرف اک بات کا جواب دے دو
کیا تم پھر سے مجھے
ُاس معاشرے میں وہی مقام دے پاؤں گے
سب کی نظروں میں میرے لیے پھر سے
وہی کچھ ادھوری ، کچھ مکمل
نادان سی پہچان دے پاؤں گے