لڑکیاں کھلونا نہیں ہیں
Poet: AF(Lucky) By: AF(Lucky), Saudi Arabiaہر کسی کو محبت میں وفا نہیں ملتی
چلو ! میں تمہاری بات مان لیتی ہوں
چلو ! کچھ کہیں بناء ہی میں لوٹ جاتی ہوں
میں خود کو سمجھا لوں گئی
میں خود کو بھلا لوں گئی
مگر تم بھی اک وعدہ کرو
مجھے میرا وہی مان دے دو گے
میری وہی کچھ ادھوری ، کچھ مکمل
کچھ نادان سی پہچان دے دو گے
جو لوگوں کی نظروں میں
مان تھا کبھی میرے لیے
تم پھر سے مجھے وہی مان دے دو گے
جو آج ُاٹھ رہے ہیں میرے کردار پے سوال
تم ہر اک کے سوالوں کا جواب دے دو گے
میری سونہی آنکھیں جو
اب خوابوں سے بھی ڈرتی ہیں
تم پھر سے ُانہیں سپنوں کا جہاں دے دو گے
بھول نہیں شاید گناہ تھا میرا
جو محبت پے بھروسہ کر لیا میں نے
چلو ! چھوڑوں مجھے تم سے کوئی گلہ نہیں
مجھے تم سے کوئی شکوہ نہیں
چلو ! میں لوٹ جاتی ہوں
وہ چاندی راتیں وہ پیار کی باتیں
میں سب ہی بھول جاتی ہوں
میں سمجھا لوں گئی خود کو
کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں
مگر تمہارے کہنے پے
میں جنہیں چھوڑ آئی تھی
میں جن سے اپنا ہر تعلق توڑ آئی تھی
میں جن کے صدیوں کے بھروسے کو
صرف چند سالوں کی الفت میں تماشا بنھا آئی تھی
میں جن کی عزت کی چادر ُاتار آئی تھی
میں ُانہیں کیا جواب دوں گئی ۔ ۔ ۔ ؟؟
چلو ! میں واپس لوٹ کر انہیں کچھ بھی کہہ لوں گئی
میں ُان کا ہر ظلم سہہ لوں گئی
مگر میرے ہمدم یوں کسی کو
آدھے راستے میں چھوڑا نہیں کرتے
چاہے کچھ بھی مجبوری ہوں
یوں تو کسی کا دل توڑا نہیں کرتے
کیا محبت یوں بھی ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ ؟؟
چلو ! چھوڑوں مگر صرف اک بات کا جواب دے دو
کیا تم پھر سے مجھے
ُاس معاشرے میں وہی مقام دے پاؤں گے
سب کی نظروں میں میرے لیے پھر سے
وہی کچھ ادھوری ، کچھ مکمل
نادان سی پہچان دے پاؤں گے
پر یہ امکان بھی اب زخمِ گُماں بن بیٹھا
کچھ نظر آئے تو لگتا ہے وہی تُو شاید
کچھ نہ ہو سامنے، تو دردِ جہاں بن بیٹھا
عشق؟ ہاں، عشق بھی اک کھیل سا لگتا ہے مجھے
جس میں ہر وار پہ دل ہی بے زباں بن بیٹھا
میں نے خود کو تری چاہت میں مٹا کر دیکھا
اب وہ خالی سا وجودِ ناتواں بن بیٹھا
کون سنتا ہے یہاں شورِ سکوتِ دل کو
میں ہی اک شمع تھا، خود خاکِ دھواں بن بیٹھا
میں نے مانا تھا کہ احساس ہی پوجا ٹھہرے
پر یہ احساس بھی اب ترکِ زباں بن بیٹھا
تُو اگر خواب میں آئے تو اجالہ پھیلاؤ
ورنہ خوابوں کا ہر اک زخمِ نہاں بن بیٹھا
ایک چہرہ تھا مرے دل کی دعا کے اندر
اب وہی چہرہ مرا دشتِ فغاں بن بیٹھا
کبھی لگتا ہے کہ میں خود سے جدا ہو جاؤں
اور کبھی خود ہی مرا سائۂ جاں بن بیٹھا
میں نے سوچا تھا تری یاد سے جا پاؤں کبھی
پر وہی یاد مرا عینِ اماں بن بیٹھا
اسدؔ اب یاد بھی آتی ہے تو جلتا ہوں میں
جیسے ماضی کوئی خنجر کی زباں بن بیٹھا
ہٹا دے تیرگی تنویر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں تھوڑی دیر میں اک جرم کرنے والا ہوں
تو ایسا کر مری تعزیر میرے ہاتھ پہ رکھ
میں کتنے روز سے خط کی مہک کو ڈھونڈتا ہوں
سو جھوٹ موٹ کی تحریر میرے ہاتھ پہ رکھ
بہت سے لوگوں کے حق تُو دبا کے بیٹھا ہے
مشقتوں کا صلہ مِیر! میرے ہاتھ پہ رکھ
نہیں سدھرنا تو پھر ساری کوششیں بیکار
تو چاہے جتنی بھی تفسِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تو میرا دوست ہے شعروں کو میرے دیکھ ذرا
جو ہو سکے ہے تو تاثیر میرے ہاتھ پہ رکھ
مرا وجود تو یوں بھی ہے تیرے ایماء پر
مجھے تو ڈال کے زنجیر میرے ہاتھ پہ رکھ
معاملات ترے ساتھ طے کروں گا میں
مگر تُو پہلے تو کشمیر میرے ہاتھ پہ رکھ
تجھے بھی ہو مری بے کیفیوں کا اندازہ
کبھی تو دل کو ذرا چِیر میرے ہاتھ پہ رکھ
کہانیاں نہ رہیں اب، نہ رنگ آمیزی
محبتوں کی اساطیر میرے ہاتھ پہ رکھ
رشیدؔ اس کے عوض جھونپڑی نہ چھوڑوں گا
بھلے تو ساری ہی جاگیر میرے ہاتھ پہ رکھ
سَچ ہے کہ بہت سے مُحبت کے نام پر کھِلواڑ کرتے ہیں
یہ خوابوں کی بَستی کہاں سَچ مِلتا ہے وَفا والو
یہ جھُوٹی دُنیا میں اَکثر اپنے دِل کو بَرباد کرتے ہیں
یہ راہوں میں سَچّوں کے پیچھے پھِرنے والے کم ملِتے
یہ لوگ تو بَس دُکھ دے دِلوں کو بَرباد کرتے ہیں
یہ سچّے جَذبوں کا گہوارہ اَکثر سُونا ہی رہتا ہے
یہ پیار کے نام پر لوگ فَقط شاد کرتے ہیں
یہ دُنیا َبس نام کی خوشیاں سچّے دِلوں کو کب مِلتی؟
یہ راہوں میں اَکثر اپنی سچَّائی کو بَرباد کرتے ہیں
یہ خَلوص کا سایا بھی اَب نایاب نظر آتا ہے ہم کو
یہ مَطلب پَرَست فَقط چہرے ہی آباد کرتے ہیں
یہ وَعدوں کا موسم کب رَہتا ہے گُزر جاتا ہے لَمحوں میں
یہ رِشتوں کے نام پر اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں
یہ سَچّے جَذبے بھی مظہرؔ دُکھ سَہتے سَہتے چُپ ہو جاتے
یہ لوگ تو َبس اَپنے مَطلب سے اِرشاد کرتے ہیں
مظہرؔ تُو سَچّوں کے سَنگ چَل بیکار نہ کر دِل کو
یہ جھُوٹ کی دُنیا والے اَکثر دِل ناشاد کرتے ہیں






