لکھی گئی ہوں میں احساس کے نصابوں میں
ملوں گی اب میں تمہیں وقت کی کتابوں میں
ابھی تو آپ سے ملنے کی پیاس بھی نہ بجھی
بھٹک رہی ہوں ابھی آس کے سرابوں میں
اک ایک سنگ سے آنے لگی تھیں آوازیں
قدم رکھا ہی تھا جذبات کی رکابوں میں
گذر کے آئی ہوں کن کربناک راہوں سے
گھری ہوئی ہوں میں کن بے ثمر خرابوں میں
ہوں پارسا بھی ضروری تو یہ نہیں ہوتا
چھپا کے رکھتے ہیں چہروں کو جو نقابوں میں
نہ جانے اور بھی کتنے سوال باقی ہیں
کہ ہم تو الجھے ہوئے ہیں ابھی جوابوں میں
جو ہم نے دیکھی تری نیم باز آ نکھوں میں
بقول میرؔ وہ مستی کہاں شرابوں میں
دھواں دھواں ہے اب اس کا خیال بھی عذراؔ
شریک تھا جو کبھی روشنی کے خوابوں میں