لکھے ہوئے گیت غزل ہر بار تڑپتے ہیں
Poet: Santosh Gomani By: Santosh Gomani, Mithiلکھے ہوئے گیت غزل ہر بار تڑپتے ہیں
انہیں خطوں میں میرے اظہار تڑپتے ہیں
کپکپاتی انگلیوں میں قلم بہک جاتی ہے
وہ فکر تشویش کہ خود قلمکار تڑپتے ہیں
جگتے ہے ستاروں کے سنگ دیئے رات بھر
ان سنسان مکانوں میں انتظار تڑپتے ہیں
تیری الجھنوں میں جو سو نہ سکا اک پل
اُسی شخص کے دیکھو انتشار تڑپتے ہیں
آج تو وہ تنہائی پاکر تنہا بیٹھ گیا
جہاں عاشق اور منتظری وہاں دیدار تڑپتے ہیں
کوئی نہ جان سکا محبت کی گہرائیاں سنتوشؔ
ہم بے ترس لوگوں لیئے بیکار تڑپتے ہیں
More Sad Poetry






