لگی تھی آگ جو، کسی نے بجھائ نہ ہو گی
کہانی تھی جو اپنی، وہ کسی کو سنائ نہ ہو گی
جہاں تک گیا تھا عشق،موت کو بھی اتنی رسائ نہ ہو گی
اور جو کہہ گئے تھے ہم تم سے، وہ گھتی کسی سے سلجھائ نہ ہو گی
کتنے راز تھے تحریر اُس صورت پر، حقیقت تاب لائ نہ ہو گی
اور روبرو دیکھا ہو گا جب اُسکی آنکھوں میں، یاد ہماری تو آئ نہ ہو گی
جس قدر صبر سے سہہ گئے سب ہم، داستان ایسی کسی نے سنائ نہ ہو گی
چلو مان لیا لاکھ بُرے ہی سہی ہم، مگر ہم سی کسی نے نبھائ نہ ہو گی