لباس مختصر ہو چکا ہے
برہنہ معتبر ہو چکا ہے
جو کام نا ممکن تھا
کچھ لے کر لو چکا ہے
آپ دیر سے آئے ہیں
اُن کا ذکر ہو چکا ہے
پہلے میرا دل تھا جو
اب انکا گھر ہو چکا ہے
جنوری میں ملاقات ہوئی تھی
دیکھ دسمبر ہو چکا ہے
تیرے فراق سے ڈرنے والا
اب بے خطر ہو چکا ہے
ہولے ہولے تیرا لہجہ
شکر سے خنجر ہو چکا ہے
اب تھجے پیش ہونا ہے
ضمیر حیدر ہو چکا ہے۔