لمحوں کا کوئی کھیل حشر سے جدا نہیں
لیکن ہوس کو اس سے کوئی واسطہ نہیں
بیٹھے ہیں ناگ باغ کے ہر ایک نخل پر
انکے زہر سے پھول کوئی بھی بچا نہیں
سونامی ہو سیلاب ہو یا مد و جزر ہو
لہروں میں انقلاب کی کوئی صدا نہیں
آتے ہیں کہیں اور سے احکام اتر کر
منصف کے پاس اپنا کوئی فیصلہ نہیں
جاری ہے زور شور سے یہ کھیل جبر کا
فرعون کی اولاد کو خوف خدا نہیں
کھاتی ہیں نوچ نوچ کے انساں کی ہڈیاں
چیلوں کی ٹولیوں سے کوئی ماورا نہیں
آتے ہیں سبھی بھیس بدل کر میدان میں
باسی پھلوں کی منڈی میں تازہ ہوا نہیں
عورت کا احترام نہ چادر کا التزام
چنگیزیت کا دور ہے دل میں حیا نہیں
اپنوں کا خون چوستی جونکیں ہزار ہا
دکھ درد کوئی ایک گھڑی پوچھتا نہیں