لہو تک آنکھ سے اب بہہ لیا ہے
بہت تھا جبر لیکن سہہ لیا ہے
عذاب ہجر اب واپس پلٹ جا
بہت دن میرے ساتھ رہ لیا ہے
نمی آنکھوں سے جاتی ہی نہیں
ستم اس دل نے اتنا سہہ لیا ہے
یہ دل کوئی ٹھکانہ چاہتا ہے
بہت دن راستوں میں رہ لیا ہے
تجھے کہنا تھا جو احوال دل کا
در و دیوار سے ہی کہہ لیا ہے